ھ سمجھ لیتا ٫زندگی کی رنگینیوں میں مگن ہو کے رہ جاتا اور اپنے نفس کو پوجتا ہے ۔یہ بھول جاتا ہے یہ دنیا فانی ہے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا یہ حُسن ،جوانی دولت تو پھر اے انسان تھجے غرور کس بات کا ۔یہ زِندگی تو بس اذان سے لے کر نماز تک کا سفر ہے ۔جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اور موت کے وقت اس اذان کی نماز ادا کی جاتی ہے بس یہی زندگی ہے اور ہم کیا کیا سوچتے ہیں کہ زندگی ایسی ہونی چاہیے ابھی یہ کرنا وہ کرنا کبھی سوچا ہے کے اگلے لمحے ہم اس دنیا میں ہوں گے بھی کے نہیں ۔ اپنے ساتھ اس فانی دنیا سے کیا لے کر جا رہے ۔
ہماری زندگی میں کچھ تو ایسا ہوا ہو گا نہ جس نے ہماری معصومیت،چہچہاہٹ ہمارا بچپنا سب چین لیا۔
ہماری رُوح اضطراب کی حالت میں ہوتی ۔سکون کی کی تلاش میں ہوتی لیکن وہ سکون وہ چین شاید دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکا ہوتا ہے
میں اکثر سوچتی تھی کے ۔۔۔۔
مرے ساتھ ہی ایسا کیوں ؟
کیا اللہ کو مجھ سے محبّت نہیں ؟
دن گزارنے مشکل ہو رہے ۔تھے آنسو تھے کے روکنے کا نام ہے نہیں لے رہے تھے ۔لیکن پھر ایک دن قرآن کی ایک آیت پر نظر جیسے جم سی گئی یوں تو ویسے بھی قرآن کی تلاوت کرتی تھی لیکن کبھی قرآن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
(اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ)
خبر دار ہوجاؤ اللہ ہی کے ذکر میں دلوں کا سکون ہے ۔ (سورۂ رعد آیت ۲۸)
اُس دِن یہ بات ذہن نشین ہوئی سکون تو قرآن میں ہے اور ہم دنیا میں اِدھر اُدھر بیٹھکتے پھر رہے ۔کس کی تلاش میں سکون کی ۔لوگوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اگر یہی اُمید اور یقین اللّٰہ کی ذات پر کیا ہوتا تو یقیناً دل کبھی بھی اضطرابی حالت کا شکار نہیں ہوتا ۔ انسان تو ہے ہے لالچی اتنی نعمتیں ہونے کے باوجود بھی شُکر نہیں ادا کرتا ۔ پھر اپنی نہ شکری پے رونا آتا تھا ۔اللہ تو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ کیسے اپنے بندے کو تکلیف میں دیکھ سکتا ۔دراصل اللّٰہ جس بندے کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتا ہے وہ اسے توڑتا ہے پھر بار بار توڑتا ہے ۔ وہ ایسے کسی ایسے شخص يا چیز کی محبّت میں ڈال دیتا ہے کے کو لا حاصل ہو اُسکی دل کو پھر اپنے لیے خاص کر لیتا ہے ۔دن گزرتے گئے قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے میں مزید تڑپ پیدا ہوتی گئی۔قرآن تو نورِ ہے یہ نورِ جس کے دل میں داخل ہو گیا اُسکی حیات سنوار گئی۔مجھے یوں محسوس ہونے لگا میں تو اپنی زندگی کے کئی سال غفلت میں گزار دیے حضرت محمد کی بات ذہن میں آئی ۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں ( جو وقت بغیر ذکرِ الٰہی کے خالی گزر گیا بروزِ قیامت وہی ساعت حسرت کا موجب بنے گا۔)